Tuesday, April 2, 2013

Former PPP stalwatrt and writer Zafar Hilali also joins "Zaid hamid" club :))

Former PPP stalwatrt and writer Zafar Hilali also joins "Zaid hamid" club :)) Alhamdolillah, more and more people from all schools are demanding aggressive army intervention to clean the system from traitors and the corrupt.

This is what we mean. Keep raising the voice and soon we will have millions demanding the same thing -- a patriotic caretaker government backed by army to hang all the traitors in a single night !!!

Pak army -- are you listening ????




فوج کا نیا کردار

 

اب ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہم اس وقت کونسا نظام اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ جمہوریت سے پہنچنے والا نقصان آمریت کے ذریعے پہنچنے والے نقصان سے ہر گز کم نہیں، نیز صدارتی نظام بھی عین اسی طرح ناکام ثابت ہوا جس طرح ویسٹ منسٹر قسم کا نظام ناکامی سے دوچار ہوا۔ اصل اہمیت کے حامل نتائج ہوتے ہیں۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے پیتل کی ٹوپیوں والے موجودہ صورت حال سے آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں۔
 
اس موقع پر اگر کچھ لوگ یہ سوچ بھی لیں کہ یہ صورت حال فوجی بغاوت کی متقاضی ہے لیکن پھر بھی یہ نظریہ میرے ذہن میں آنے والا آخری نظریہ نہیں۔ آخری حل تو یہی ہے کہ اس وقت صورت حال جیسی بھی ہے، ایسی ہی جاری رکھی جائے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جہاں ایک غریب محنتی طالبعلم جو پڑھائی کے بعد ایک دفتر میں ملازمت کرتا تھا، فواد، کراچی میں اٹھارہ ماہ کے عرصہ کے دوران مختلف 9 مواقع پر اپنے موبائل فونوں اور اپنے بٹوے میں موجود کافی رقم سے محروم ہو گیا۔ میرے ساتھ بھی اس قسم کا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے جب ایک لٹیرے نے میرے سر پر بندوق تان لی اور دوسرے نے اپنی بندوق کا رخ میرے پیٹ کی طرف کر دیا۔ اس کے علاوہ جس دہشت کا مجھے سامنا کرنا پڑا، اسے الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔
 
یقینی طور پر یہ ایک ناقابل برداشت صورت حال ہے۔ ریاست کی طرف سے نہ صرف خودکش بمبار یا ریموٹ کنٹرول بموں بلکہ گلیوں اور سڑکوں پر بندوق کی نوک پر ہونے والے جرائم، کاروں کے اغواء، نقب زنی، بدعنوانی، قانون کی دانستہ خلاف ورزی کے خلاف کراچی کے عوام کی جان ومال کی حفاظت کرنے کی عدم صلاحیت کے باعث کراچی کے لوگوں میں عدم تحفظ کااحساس بڑھتاجارہاہے۔ بعض اوقات قانون کے محافظ ہی لٹیرے ثابت ہوتے ہیں۔
 
جہاں تک پیتل کی ٹوپیوں والے افراد کی جانب سے اس صورت حال سے لاتعلق رہنے کا معاملہ ہے، ان کا یہ رویہ غیرذمہ داری، بے حسی اور تنگ نظری کا مظہر ہے۔ پیتل کی ٹوپیوں والے لوگ محض یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے کہ ان کا فرض تو محض ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ ان کے فرض کا دائرہ کار تمام ملک ، ہر محلہ، گلی اور سڑک پر محیط ہے جہاں کسی بھی قسم کا خطرہ موجود ہو۔
 
اس وقت پاکستان کو دو دشمنوں کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک غیرملکی ہے جو بخوبی مسلح ہے اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر پاکستانی سرحدوں کی طرف نظر جمائے ہوئے ہے جبکہ دوسرا دشمن مقامی ہے اور اس کے پاس بھی وافر اسلحہ موجود ہے اور پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر اپنے اہداف کا شکار کر رہا ہے۔ دونوں دشمنوں کی مذموم اور قبیح نوعیت و فطرت میں کوئی فرق نہیں، دونوں ہی ایک جیسے خطرناک ہیں اور دونوں ہی ملکی امن اور سلامتی کے علاوہ شہریوں کی جان ومال کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
 
فوج کی طرف سے اکثر یہی موقف سامنے آتا ہے کہ وہ بھارت اور طالبان کے مقابلے کے لیے اپنی پوری قوت استعمال کر رہے ہیں اور ملک کے اندر مجرموں اور مسلح گروہوں سے نمٹنے کے لیے انہیں نہ تو مناسب تربیت میسر ہے اور نہ ہی ان کے پاس معقول اسلحہ موجود ہے کہ وہ یہ اضافی ذمہ داری ادا کر سکیں۔ یہ تو محض عذرِ لنگ ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فوج کے پاس اس پولیس سے کم آلات جنگ موجود ہوں جن کی سربراہی بدقماش سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے اور جو انہیں اپنے نجی فوج تصور کرتے ہیں؟ اور اگر فوج کسی بھی طرح سے متاثر ہو کر یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی مرتب کر سکتی اور چلا سکتی ہے اور اس مقصد کا حصول عشروں تک ملک کی حکومت پر قبضے اور اس کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں رکھنے کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے، اس تناظرمیں کسی بھی قسم کے بہانے کی کوئی وقعت نہیں۔
 
حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک کی مسلح فوج اور پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر سکتی تو پھر وہ بھی حق بجانب نہیں کہ وہ ملک سے وفاداری اور اطاعت کا مطالبہ کریں اور انہیں ملک کی آمدن کا حصہ دار بننے کا بھی کوئی حق نہیں۔ سرحدوں پر گشت کرتے ہوئے اور اس تناظر میں اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی کاا س بنا پر انکار کرتے ہوئے کہ آئین میں اس قسم کی کوئی گنجائش نہیں، ان کی بے اعتنائی کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ درحقیقت عوام تو آئین کے لیے تشکیل نہیں دیے جاتے بلکہ آئین ہی عوام کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے۔
 
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پولیس اور خفیہ اداروں کے پاس موجود فرسودہ اسلحہ کے بجائے جدید اور ترقی یافتہ آلات جنگ کی فراہمی، ملک اور اس سے منسلک ہمسایہ سرحدوں کی نگرانی، معلومات کی بنیاد پر منصوبہ بندی اور پھر ایک معقول و بھرپور کارروائی ناتجربہ کار اور مفاد پرست سیاستدانوں اور ان کے بیوروکریٹک ایجنٹوں کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے قانون ساز اداروں اور اراکین کے طرزعمل اور کارکردگی پر سرسری نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان میں منصوبہ بندی کی صلاحیت کا فقدان ہے اور وہ تن تنہا ملک کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔
 
اہم سوال یہ ہے کہ کیا وفاق کے علاوہ صوبائی سطح پر ہمارے ہاں ایسے قائدین ہیں جن کے پاس ملکی مسائل کے حل کے ضمن میں خفیف سا علم بھی ہو۔ جرم کے متعلق ان کا علم محض یہ ہے کہ جرم سے کیسے دور رہا جا سکتا ہے۔ ایک وزیر تو ایسا ہے جو اپنے منہ میاں مٹھو بنتا نہیں تھکتا ۔ ایک اور وزیر بھی اسی قسم کے رویے کا حامل ہے۔ درحقیقت جرم کے خلاف جنگ وسائل کی عدم دستیابی کے باعث نہیں بلکہ اہل افرادی قوت کی عدم دستیابی کے باعث ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔
 
جب فرسودہ قوانینِ شہادت جو برطانویوں کی عطا تھے، جنہیں بذات خود برطانویوں نے بہت پہلے ہی ترک کر دیا تھا، کے باعث ظالم قاتل چھوٹ جائیں، جب گواہوں کو اپنے قتل ہو جانے کا ڈر ہو، جب جج اس خوف سے قاتلوں کو موت کی سزا دینے سے احتراز کریں کہ انہیں قتل نہ کر دیا جائے، جب ایک نوجوان ایک منٹ میں بندوق کی نوک پر اتنا کچھ کما لے جو وہ ایک ماہ میں بھی نہ کما سکے تو پھر اسے کوئی ملازمت تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ درحقیقت پاکستان میں جرائم کا پیشہ نہایت ہی منافع بخش ہے۔
 
لیکن ایسی صورت حال ہرگز برقرار نہیں رہنی چاہیے اور آخری چارہ کار کے طور پر صرف فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو ممکنہ طور پر یہ سب کچھ روک سکتا ہے۔ بہرحال کامیابی کے حصول کے لیے فوج کو اپنی تشکیل دوبارہ کرنی ہوگی۔ درحقیقت نئے اور جدید خیالات اور نظریات اپنانے پر لاگت کچھ نہیں آتی اور ان کی ناکامی کا بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ ہم کوئی مزید بدترین طریقہ اختیار نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف کامیابی عظیم انعام کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ فوج سرحدوں سے چمٹے رہنے کے بجائے عملی طور پر فعال ہو اور پاکستان کے لیے نجات دہندہ ثابت ہو

0 comments:

Post a Comment